بے نام ساعتوں کا سفر ختم ہو چلا

بے نام ساعتوں کا سفر ختم ہو چلا
لو امتحان فکر و نظر ختم ہو چلا


واں تیرگیٔ محفل یاراں نہ مٹ سکی
یاں روغن چراغ ہنر ختم ہو چلا


احسان ہے مشیت پروردگار کا
ہنگامۂ حیات بشر ختم ہو چلا


میخانۂ حیات سے رندو نکل چلو
پیمانۂ دعا کا اثر ختم ہو چلا


اے جان انتظار نیا زخم دے مجھے
لطف بہار دیدۂ تر ختم ہو چلا


دکھلا کے آفتاب درخشاں کی اک جھلک
افسانۂ نمود سحر ختم ہو چلا


اس نے اک اور داغ جگر دے دیا صباؔ
جب اعتبار سوز جگر ختم ہو چلا