خرد میں مبتلا ہے سالکؔ دیوانہ برسوں سے

خرد میں مبتلا ہے سالکؔ دیوانہ برسوں سے
نہیں آیا وہ مے خانے میں بیباکانہ برسوں سے


میسر جس سے آ جاتی تھی ساقی کی قدم بوسی
مقدر میں نہیں وہ لغزش مستانہ برسوں سے


بیاد چشم یار اک نعرۂ مستانہ اے ساقی
کہ ہاؤ ہو سے خالی ہے ترا مے خانہ برسوں سے


تجھے کچھ عشق و الفت کے سوا بھی یاد ہے اے دل
سنائے جا رہا ہے ایک ہی افسانہ برسوں سے


کسی کو تو مشرف کر دے اے ذوق جبیں سائی
تقاضا کر رہے ہیں کعبہ و بت خانہ برسوں سے


نئی شمعیں جلاؤ عاشقی کی انجمن والو
کہ سونا ہے شبستان دل پروانہ برسوں سے


کوئی جوہر شناس آئے تو جانے قدر سالکؔ کی
پڑا ہے خاک پر یہ گوہر یک دانہ برسوں سے