غم کے ہاتھوں مرے دل پر جو سماں گزرا ہے

غم کے ہاتھوں مرے دل پر جو سماں گزرا ہے
حادثہ ایسا زمانے میں کہاں گزرا ہے


زندگی کا ہے خلاصہ وہی اک لمحۂ شوق
جو تری یاد میں اے جان جہاں گزرا ہے


حال دل غم سے یہ ہے جیسے کسی صحرا میں
ابھی اک قافلۂ نوحہ گراں گزرا ہے


بزم دوشیں کو کرو یاد کہ اس کا ہر رند
رونق بار گہ پیر مغاں گزرا ہے


پا بہ گل جو تھے وہ آزردہ نظر آتے ہیں
شاید اس راہ سے وہ سرو رواں گزرا ہے


نگرانیٔ دل و دیدہ ہوئی ہے دشوار
کوئی جب سے مری جانب نگراں گزرا ہے


حال دل سن کے وہ آزردہ ہیں شاید ان کو
اس حکایت پہ شکایت کا گماں گزرا ہے


وہ گل افشانیٔ گفتار کا پیکر سالکؔ
آج کوچے سے ترے اشک فشاں گزرا ہے