خیال یار سے دامن چھڑا کے آئی ہوں

خیال یار سے دامن چھڑا کے آئی ہوں
میں اپنے کاندھے پہ آنسو بہا کے آئی ہوں


بہت سا بوجھ تھا دل پر سو دشت الفت میں
تمہارے پیار کا قرضہ چکا کے آئی ہوں


چراغ شب تھا مجھے دیکھ کر تمہارا وجود
تمہاری آنکھوں کے دیپک بجھا کے آئی ہوں


پرانے پیڑ مرے ساتھ ساتھ روتے رہے
جو نام مل کے لکھے تھے مٹا کے آئی ہوں


چراغ ہے کہ مرے دل میں یاد کا سورج
جسے دریچے میں شب کے سجا کے آئی ہوں


ہزار کلیاں گلابوں کی مسترد کر کے
میں اپنے جوڑے میں پتے لگا کے آئی ہوں


مجھے تلاش کرو گرد عاشقی میں جہاں
میں اپنے پیار کا صحرا چھپا کے آئی ہوں


ادھر نہ جانا کبھی لڑکیوں سے کہتی ہوں
میں راہ عشق میں تن من گنوا کے آئی ہوں