اپنا ہر دکھ خود سے کہنا

خود ہی اپنی سکھی سہیلی
دن بھر کی سب چھوٹی سے بھی چھوٹی باتیں
دور کسی گنجان سڑک پہ چلتے چلتے
جب پاؤں اک پتھر سے ٹکرایا تھا تو
کیسے میں چھوئی موئی سی بیچ سڑک اس شام گری تھی
میری چادر تیز ہوا سے دور تلک اڑتی ہی گئی تھی
نوسر باز ہوا سے کیسے دھوکا کھایا
اچھی بری نظریں دنیا کی
اپنی ہار اور اپنی جیت
اپنا سب کچھ خود سے کہنا
خود ہی بیٹھ کے روتے رہنا
خود کو آپ دلاسا دینا
اپنی آنکھ کے سارے آنسو خود ہی پینا
خود ہی مرنا
خود ہی جینا
اپنے دکھ سکھ خود سے کہنا
خود ہی ہنسنا
خود ہی رونا
روتے روتے بے خود ہونا