خلا
چار سو اک اداس منظر ہے
زیست ہے جیسے ایک ویرانہ
جانے کیوں پھٹ رہا ہے آج دماغ
ہو نہ جاؤں کہیں میں دیوانہ
دوست کہتے ہیں سیر کر آئیں
موج کر آئیں دل کو بہلائیں
کوئی دلبر نہ دل نشیں کوئی
کوئی گل رو نہ مہ جبیں کوئی
جی مچل جائے جس سے ملنے کو
ہائے اس دہر میں نہیں کوئی
چاند تاروں کی روشنی بے سود
سیر دریا کی بات بھی بے سود
گلستاں کی کلی کلی بے سود
ہم نشینوں کی دل لگی بے سود
دل کو لگتا ہے آج رہ رہ کر
جیسے ہے میری زندگی بے سود
ماہ اور سال کتنے بیت گئے
بے سبب بے حصول بے منشا
ہائے لیکن یہ ایک اک لمحہ
کچھ بھی کیجے گزر نہیں پاتا
چبھ رہا ہے جگر میں اک کانٹا
کاش میرا بھی کوئی ہو جاتا
کاش میرا بھی کوئی ہو جاتا
کاش میرا بھی کوئی ہو جاتا