خبر کچھ ہے تجھے تیرے چلے جانے پہ کیا گزری

خبر کچھ ہے تجھے تیرے چلے جانے پہ کیا گزری
پرستاروں پہ کیا گزری صنم خانے پہ کیا گزری


پرے دیر و حرم سے بھی گئے کیونکر خدا جانے
حدود عقل سے آگے نکل جانے پہ کیا گزری


گئے تھے بن سنور کے آئنہ خانے میں وہ اک دن
کسے معلوم ہے پھر آئنہ خانے پہ کیا گزری


مرا دست جنوں آگے بڑھا ہے جیب و داماں سے
خدا را اب نہ پوچھو کہ بہار آنے پہ کیا گزری


اجازت ہو تو اے پیر مغاں کیا پوچھ سکتا ہوں
کہ میرے بعد تجھ پہ تیرے میخانے پہ کیا گزری