خامشی التفات ہے شاید
خامشی التفات ہے شاید
ایک مہمل سی بات ہے شاید
درد دل ہی برات ہے شاید
حسن کی یہ زکوٰۃ ہے شاید
زندگی دو عدم کی برزخ ہے
اس لئے بے ثبات ہے شاید
زندگی موت سے عبارت ہے
موت شرح حیات ہے شاید
کتنے ویرانے ہو گئے آباد
آپ کا التفات ہے شاید
کچھ نہیں سوچتا جوانی میں
یہ بھی تاریک رات ہے شاید
کہتے کہتے جو ہو گئے خاموش
راز کی کوئی بات ہے شاید
اس یقیں پر کلیم ہیں بے ہوش
جلوۂ حسن ذات ہے شاید
دل کی تسکین روح کی راحت
آہ وجہ حیات ہے شاید
آنکھ کے تل کے ایک ذرے میں
سمٹی کل کائنات ہے شاید
نشہ کامئ کربلا ہے عشق
حسن آب فرات ہے شاید
شعلہؔ اس دل میں ٹیس اٹھتی ہے
آپ کا التفات ہے شاید