خاکساروں کے فن کرارے ہیں
خاکساروں کے فن کرارے ہیں
خاک اوڑھے ہوئے شرارے ہیں
آدمی یہ بھی وہ بھی سارے ہیں
نت نئے رنگ روپ دھارے ہیں
کیوں نہ خودبیں ہوں ماہ پارے ہیں
پیار کرتے نہیں جو پیارے ہیں
مٹ گئے جو وفا کی راہوں میں
کتنے انمٹ نشاں ابھارے ہیں
کس سے شکوہ ہو بے وفائی کا
ہم تو اپنی وفا کے مارے ہیں
یاس ہی یاس تم ہمارے ہو
آس ہی آس ہم تمہارے ہیں
یاد تیری بڑا سہارا ہے
تجھ کو بھولے تو بے سہارا ہیں
یوں بجھے دل کی حسرتیں نہ کرید
راکھ کے ڈھیر میں شرارے ہیں
جن کی کوئی سحر نہ شام کوئی
ہم نے ایسے بھی دن گزارے ہیں
کتنے گزرے ہیں حادثے دل پر
وہ جو پیارے تھے دل کو پیارے ہیں
جان لیوا ہیں پیار کے رشتے
ان پہ مرتے ہیں جن کے مارے ہیں
غم میں ہنستا خوشی میں روتا ہے
طور عامرؔ کے سب نیارے ہیں