کراچی
کراچی میں دیکھی ہزاروں کی ہستی
قرار آفریں بے قراروں کی بستی
امیروں کے بنگلے غریبوں کے چھپر
بلا کی بلندی قیامت کی پستی
شریفوں کی اور شہریاروں کی دنیا
کہیں ریل پیل اور کہیں تنگ دستی
نکھرتا بڑھاپا مچلتی جوانی
کہیں بت گری ہے کہیں بت پرستی
جوانوں کے پہلو میں کھلتے ہوئے دل
حسینوں کی نظروں سے بادہ پرستی
خراماں خراماں کلفٹن پہ آ کر
سمندر کی مچھلی نہ ہنستی نہ پھنستی
کہ شیریں محل کھارا در ہے کراچی
نئی روشنی کا نگر ہے کراچی
بڑی خوبیاں ہیں بڑے آدمی میں
غریبوں کی کٹتی ہے بے چارگی میں
ادب بھی تجارت وفا بھی تجارت
تجارت کی دھن ہے ہنسی میں خوشی میں
سلامت رہے کارخانے کی چمنی
بڑا سیٹھ ماہر ہے جادوگری میں
جیبوں کے آدم جیوں کے ٹھکانے
چمکتے نظر آئیں گے روشنی میں
حیا ہوٹلوں میں ہے آپے سے باہر
وفا گھر کے اندر بھی ہے بے بسی میں
قمیضوں سے بازو الگ ہو چکے ہیں
غرارہ بھی پتلون ہے سادگی میں
حسینوں کے چہرے چمکتے دمکتے
تکلف نہیں حسن کی آرسی میں
کہ خوش پوش ہے خوش نظر ہے کراچی
نئی روشنی کا نگر ہے کراچی
امیروں کا مسکن غریبوں کا گھر ہے
رئیسوں کا دانشوروں کا نگر ہے
غریبوں کے خون جگر کی بدولت
امیروں کا سوکھا ہوا حلق تر ہے
خدائی کے چکر میں ایسا گھرا ہے
کہ بندہ خدا سے یہاں بے خبر ہے
کراچی کی سڑکیں بڑی تنگ دل ہیں
غریبو تمہارا خدا راہبر ہے
یہاں شام بھی رات بھی دن بھی روشن
گناہوں ثوابوں کی کس کو خبر ہے
کہ گلشن ڈیفینس اور سوسائٹی میں
بڑے لوگ رہتے ہیں المختصر ہے
مگر خوب سے خوب تر ہے کراچی
نئی روشنی کا نگر ہے کراچی
شہیدوں کی مردان غازی کی جا ہے
یہاں اپنے قاعد کا بھی مقبرہ ہے
یہاں میر بھی پیر بھی خویش بھی ہیں
کہ میمن بھی خوبے بھی درویش بھی ہیں
حسیں اس نگر کے فسوں کار بھی ہیں
اصول محبت کے غدار بھی ہیں
فرشتوں کا روحوں کا مسکن یہاں ہے
ہمارے لیے یہ زمیں آسماں ہے
حسینوں کی نظروں کے حق دار ہوتے
اگر ہم یہاں بر سر کار ہوتے
چلو ہم بھی مانیں گے اس کے فسوں کو
سنبھالے اگر یہ ہمارے جنوں کو
جواں مہ جبینوں کا گھر ہے کراچی
نئی روشنی کا نگر ہے کراچی
ہمارا تو ہے جوگیوں جیسا پھیرا
یہاں عقل نے ڈال رکھا ہے ڈیرا
نہ شاعرؔ نے سوچا نہ ماہر نے دیکھا
ادب کو نئے ڈائجسٹوں نے گھیرا
رئیس اپنی جھگی میں تھوڑی جگہ دیں
تو ہم بھی یہاں کر سکیں گے بسیرا
خدا کی خدائی میں سب ہیں برابر
یہ چھپر یہ بنگلہ نہ تیرا نہ میرا
جو بخشے گا انسانیت کو اجالا
ہماری نگاہوں میں ہے وہ سویرا
نئی زندگی کی نئی خواہشوں نے
غموں کو سمیٹا خوشی کو بکھیرا
بہار آفریں موڑ پر ہے کراچی
نئی روشنی کا نگر ہے کراچی