کلی جو دل کی کھلی تھی مسل گئی تاریخ
کلی جو دل کی کھلی تھی مسل گئی تاریخ
بہار جیسے ہی آئی بدل گئی تاریخ
جو پو پھٹی تو ہمیں ہوش آیا رات گئی
فریب آج بھی دے کر نکل گئی تاریخ
اک اور وعدہ کا شدت سے انتظار کیا
تمہارے وعدہ کی جب بھی بدل گئی تاریخ
بہت غرور تھا ماضی پہ آج تک اس کو
ہماری راہ میں آئی تو جل گئی تاریخ
جہاں بھی ذہن رسا نے قدم اٹھائے ہیں
روایتوں کو یہ بڑھ کر کچل گئی تاریخ
کہانیوں کو حقیقت کا روپ دے ڈالا
فریدؔ آپ کے شعروں میں ڈھل گئی تاریخ