دوستی پر یقیں لا محدود
دوستی پر یقیں لا محدود
ہو چکا اب وہ سلسلہ محدود
ہم نے جو بھی کہا کہا محدود
سب کو اچھا لگا کہ تھا محدود
شاعری مختصر نویسی ہے
ورنہ لاوا تھا دل میں لا محدود
اس کو دریا میں جا کے ملنا تھا
ایک قطرہ تھا رہ گیا محدود
چاہے جتنا بھی ہو وسیع مگر
پھر بھی ہوتا ہے دائرہ محدود
اپنا اپنا نصیب ہے اے دوست
ورنہ سب کچھ یہاں ہے لا محدود
رہنما جب سے میں بنا اپنا
نہ رہا کوئی راستہ محدود
اس کو کوزے میں بند کر ڈالا
اب تو دریا بھی ہو چکا محدود
دسترس میں فریدؔ تھا سب کی
جانے اب کیوں وہ ہو گیا محدود