کیسے بیاں کروں میں کسی گل بدن کا رنگ
کیسے بیاں کروں میں کسی گل بدن کا رنگ
پھیکا ہے اس کے سامنے زاغ و زغن کا رنگ
سارے اساتذہ سے چراؤ سخن کا رنگ
گر کچھ نکھارنا ہو تمہیں اپنے فن کا رنگ
آتے ہی سارے لوگ چکن پر اڑی پڑے
ٹیبل پہ دیکھ پایا نہ میں نے چکن کا رنگ
اپنا لہو بھی شامل فصل بہار ہے
یوں سرخ ہو رہا ہے ہمارے چمن کا رنگ
مفہوم اور ہوتا ہے اشعار کا وہاں
جدت کی شاعری میں جدا ہے سخن کا رنگ
پڑ جائے رنگ میں نہ کہیں بھنگ بار میں
ہم کو تو ہے پسند فقط تاڑ بن کا رنگ
اس میں سلیقہ گھر کا نظر کیوں نہ آئے گا
ہے مختلف جو شرٹ سے میرے بٹن کا رنگ
قائل ہیں ذائقے کے غرض کیا ہے رنگ سے
دستر پہ دیکھتے ہی نہیں ہم مٹن کا رنگ
ہنستے ہوئے غموں کو چھپانا ہے اے رحیم
دیکھا نہیں کسی نے بھی رنج و محن کا رنگ