کہتے ہیں کہ یوسف کا خریدار تو لاؤ

کہتے ہیں کہ یوسف کا خریدار تو لاؤ
اس جنس گراں کو سر بازار تو لاؤ


تمثیل جمال نگۂ یار تو لاؤ
ممکن ہو جواب لب و رخسار تو لاؤ


لو نام نہ یارو کہ بغاوت ہے بڑی شے
تم پہلے ذرا جرأت گفتار تو لاؤ


اب حسن میں پیدا ہیں پذیرائی کے آثار
تم عشق میں کچھ جرأت اظہار تو لاؤ


از راہ عقیدت اسے آنکھوں سے لگائیں
تم کوئی حدیث لب و رخسار تو لاؤ


اس کے لئے زنجیر بہاراں بھی ہے کافی
گلشن میں کوئی تازہ گرفتار تو لاؤ


آرام پس منزل دشوار ہے احساسؔ
سایہ بھی ملے گا کوئی دیوار تو لاؤ