کچے دھاگے پہ نہ جا اس کا بھروسا کیا ہے
کچے دھاگے پہ نہ جا اس کا بھروسا کیا ہے
ناصحا رند بلا نوش کی توبہ کیا ہے
چین لینے نہیں دیتی تو کسی بھی صورت
زندگی کچھ تو بتا دے ترا منشا کیا ہے
حال تیرا بھی یہی ہوگا سن اے غنچۂ نو
دیکھ کر پھول کے انجام کو ہنستا کیا ہے
اور ہوں گے غم و آلام سے ڈرنے والے
تو نے اے گردش دوراں ہمیں سمجھا کیا ہے
میں تری مست نگاہوں کے تصدق ساقی
جام رہنے دے ترے جام میں رکھا کیا ہے
جانے کس آس پہ اٹکا ہے یہ دم آنکھوں میں
ورنہ اب آپ کے بیمار میں رکھا کیا ہے
زندگی دی ہے تو اللہ یہ توفیق بھی دے
میں سمجھ لوں مری تخلیق کا منشا کیا ہے
اے عزیزؔ اس کا ہر اک شے سے ہے جلوہ ظاہر
پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ پردہ کیا ہے