آس دل میں ترے آنے کی لگائے رکھوں

آس دل میں ترے آنے کی لگائے رکھوں
اک دیا روز سر شام جلائے رکھوں


چھوٹا جائے ہے مرے ہاتھ سے اب دامن ضبط
کب تک اشکوں کو تبسم میں چھپائے رکھوں


بس اسی طرح مری عمر بسر ہو جائے
میں تجھے یاد رکھوں خود کو بھلائے رکھوں


اک نہ اک دن تو یہ سر تن سے جدا ہونا ہے
کیوں نہ پھر سر کو ہتھیلی پہ اٹھائے رکھوں


مجھ کو ڈر ہے کہ نہ لگ جائے تجھے میری نظر
اپنی آنکھیں ترے چہرے سے ہٹائے رکھوں


مجھ کو معلوم ہے انجام دعا کا لیکن
اذن رحمت ہے کہ میں ہاتھ اٹھائے رکھوں


اے عزیزؔ آنے لگے چاروں طرف سے پتھر
شیشۂ دل کو کہاں تک میں بچائے رکھوں