کبھی ملو گے جو دل کے کبیر لوگوں سے

کبھی ملو گے جو دل کے کبیر لوگوں سے
تو بھول جاؤ گے ملنا امیر لوگوں سے


ہر ایک شخص سے اپنی بنے تو کیسے بنے
ہے کچھ الگ سا ہمارا خمیر لوگوں سے


جو ان کے دل کو دکھایا تو ہوگا رب ناراض
سدا دعائیں ہی لینا فقیر لوگوں سے


جو حال جاننا چاہو قفس کے پنچھی کا
تو مل کے دیکھ لو اک دن اسیر لوگوں سے


جو بے ضمیر ہیں ان سے نہیں ہے ربط مرا
ہمیشہ ملتا ہوں میں با ضمیر لوگوں سے


انہیں غرور سے فرصت کبھی نہیں ملتی
وہ کیسے بات کریں ہم حقیر لوگوں سے


یہ سوچ سوچ کے عاصمؔ کا دل لرزتا ہے
کہ کیسے ملتے ہیں منکر نکیر لوگوں سے