دل تڑپتا ہے اب تک مرا آنکھ میں بھی نمی رہ گئی
دل تڑپتا ہے اب تک مرا آنکھ میں بھی نمی رہ گئی
وہ تو کب کے گئے چھوڑ کر یاد ان کی بسی رہ گئی
رحمتوں سے بہت دور ہے جس کو دیکھو وہ مغرور ہے
اب کہاں انکساری رہی اور کہاں عاجزی رہ گئی
میری ان کی ہیں راہیں جدا وہ کہاں اور میں اب کہاں
ان کو پانے کی پھر بھی مگر آس دل کو لگی رہ گئی
دل دھڑکتا ہے ان کے لئے آنکھ روتی ہے ان کے لئے
اب کہاں اپنی یہ زندگی دوستو اپنی ہی رہ گئی
کوئی عاصمؔ کسی کا نہیں سب کے سب ہیں یہاں مطلبی
آج زندہ جہاں میں کہاں غیرت آدمی رہ گئی