جوناتھن پولارڈ: جو درحقیقت اسرائیلی جاسوس تھا

امریکہ کی نیوی میں 1979 میں جوناتھن پولارڈ  نامی تجزیہ کار بھرتی ہوا۔

 

یہ دراصل اسرائیلی جاسوس تھا۔ جوناتھن پولارڈ کا ایک بڑا کام پاکستان کے ایٹمی پروگرام سمیت عرب کے  خطے کے دیگر ممالک   کے بارے میں امریکہ کو موصول ہونے والی معلومات اکٹھا کرکے اسرائیل کو پہنچانا تھا۔  2012 میں  ڈی کلاسیفائی ہونے والی ہونے والی ایک دستاویز کے مطابق، 1984 اور 1985 میں، مسٹر پولارڈ نے اپنے اسرائیلی ہینڈلرز کو کہوٹہ پلانٹ کے بارے میں سرکاری امریکی دستاویزات کے کئی سیٹ بھیجے۔

مسٹر پولارڈ، اگرچہ ایک امریکی شہری  ہے، لیکن وہ امریکی بحریہ کی انٹیلی جنس سروس کے لیے کام کرتے ہوئے اسرائیل کے لیے جاسوسی کرتا تھا۔ 1987 میں، اسے جاسوسی کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن 21 نومبر 2015 کو پیرول پر رہا  کیا جا چکا ہے۔ 2012 میں سی آئی اے نے ایک خفیہ دستاویز جاری کی تھی ۔ دی جوناتھن جے پولارڈ  انٹیلجنس کیس

The Jonathan Jay Pollard Espionage Case دراصل اس نقصان کا تخمینہ ہے جو پولارڈ کی وجہ سے امریکہ کو اٹھانا پڑا ہے۔  یہ دستاویز،  جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے نیشنل سیکیورٹی آرکائیو پروجیکٹ کی اپیل پر ڈی کلاسیفائیڈ کی  گئی ہے۔ آرکائیو ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جو امریکی حکومت میں رازداری کو کم کرنے کے لیے کام کرتی ہے۔

سی آئی اے کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ مسٹر پولارڈ نے عرب (اور پاکستانی) جوہری انٹیلی جنس پر توجہ مرکوز کی۔

عرب غیر ملکی ہتھیاربشمول کیمیائی ہتھیار، سوویت طیارے، سوویت فضائی دفاع،  سوویت فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل اور ہوا سے سطح پر مار کرنے والے میزائل اور عرب آرڈر آف جنگ، تعیناتی، تیاری ، سمجھوتوں کے مضمرات  وغیرہ شامل ہیں۔ ۔  دستاویز میں ایک سیکشن سے پتہ چلتا ہے کہ مسٹر پولارڈ کے چوری شدہ مواد    سے اسرائیل   نے تیونس میں پی ایل او (PLO) کے ہیڈکواٹرز، لیبیا کے فضائی دفاع، اور اسلام آباد کے قریب پاکستان کی پلوٹونیم ری پروسیسنگ  تنصیبات سے متعلق معلومات کی ترسیل کی۔

اسرائیل نے اکتوبر 1985 میں تیونس میں پی ایل او کے ہیڈ کوارٹر پر حملے کے لیے ان معلومات کا استعمال کیا۔

دستاویز میں پاکستان اور اس کی جوہری تنصیبات کے 10 حوالے ہیں لیکن آرکائیو کی ویب سائٹ پر پوسٹ کی گئی کاپی سے تفصیلات مٹا دی گئی ہیں۔

 

کچھ صفحات پر افغان جنگ اور اس جنگ میں پاکستان کے کردار کے بارے میں معلومات بھی تھیں۔

اگرچہ سی آئی اے کی دستاویز میں یہ ظاہر نہیں کیا گیا ہے کہ امریکی پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں کیا جانتے تھے، لیکن اسی ویب سائٹ پر پوسٹ کی گئی دیگر ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات   اس موضوع کا بھی احاطہ کرتی ہیں۔ 

ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ 1980 کی دہائی تک امریکیوں کو معلوم تھا کہ پاکستان کے پاس کافی ترقی یافتہ جوہری پروگرام ہے، لیکن افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکی قیادت میں جنگ کے لیے اسلام آباد کی حمایت نے انہیں پاکستانیوں کے خلاف کوئی بڑی کارروائی کرنے سے روک دیا۔

جولائی 1982 میں، ریگن انتظامیہ نے سی آئی اے کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ورنن والٹرز کو جنرل محمد ضیاءالحق سے ملنے کے لیے امریکی انٹیلی جنس رپورٹس کے  شواہد کے ساتھ بھیجا ۔ شواہد کا سامنا کرتے ہوئے، جنرل ضیاء نے تسلیم کیا کہ معلومات   سچ ہو سکتی ہیں  لیکن انہوں نے جوہری ہتھیار تیار نہ کرنے کے پہلے وعدوں کو دہرایا اور مخصوص جوہری "فائر بریک" سے بچنے کا عہد کیا۔

1986 میں آرمز کنٹرول اور تخفیف اسلحہ ایجنسی کے ڈائریکٹر کینتھ ایڈلمین نے بھی وائٹ ہاؤس کو متنبہ کیا تھا کہ پاکستان خفیہ طور پر اپنی جوہری صلاحیت میں اضافہ کر رہا ہے، لیکن امریکی حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں نے ایک دوست حکومت کے ساتھ تعلقات کو عدم پھیلاؤ کے اہداف پر فوقیت دی ،تاکہ کوئی عوامی تنازع کھڑا نہ ہو جا ئے۔

ایک دستاویز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ریگن انتظامیہ یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ پاکستانی اپنے رازوں کو  ان کے ساتھ شیئر کریں کیونکہ انہیں  ڈر تھا کہ  سچ ان کے لیے  کانگریس کے حضور یہ ثابت کرنا   ناممکن بنا دے گا کہ پاکستان جوہری ہتھیار تیار نہیں کر رہا ہے۔ امریکی نیشنل کانگریس کے حضور  اس تصدیق کی دراصل افغان جنگ میں  پاکستانی امداد جاری رکھنے کے لیے ضرورت تھی۔ 

ریکارڈ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس وقت امریکہ اور پاکستان کے مابین  تعلقات میں اعتماد اور  اعتبار کا فقدان ایک اہم عنصر تھا، جیسا کہ آج ہے ۔ دستاویزات بتاتی ہیں، 1981 کے موسم گرما کے اوائل تک، اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ انٹیلی جنس نے اندازہ لگایا کہ پاکستانی شاید اس وقت ایک قابل عمل  ایٹمی ڈوائیس تیار کرنے کے قابل  ہو چکے ہیں ، حالانکہ کہوٹہ افزودگی پلانٹ 1983 تک ٹیسٹ کے لیے کافی مواد تیار کرنے کا  امکان ظاہر نہیں کر رہا تھا۔

دسمبر 1982 میں، سکریٹری آف اسٹیٹ جارج شلٹز نے صدر ریگن کو  بہت زیادہ  شواہد کی مدد سے اس  بارے میں خبردار کیا کہ جنرل ضیا جوہری ہتھیار نہ بنانے کی اپنی یقین دہانیوں کو توڑ رہے ہیں۔

            پاکستان کے بارے میں یہ تمام شواہد امریکہ کے پاس موجود تھے جو پھر اسرائیلی جاسوس کے ذریعے اسرائیل کو پتہ چل رہے تھے۔   یہی وجہ ہے کہ 1987 میں جب جوناتھن پولارڈ گرفتار ہوا تو پہلے اسرائیل نے اس کے اپنے پے رول پر ہونے سے انکار کیا لیکن پھر اس کی با زیابی کے لیے اعلیٰ سطحی کوششیں شروع کر دیں۔  2015 میں جب یہ جاسوس اپنی سزا پوری کرنے کے بعد اسرائیل پہنچا تو اس  کا بھر پور استقبال کیا  گیا اور اسے ایک ہیرو کے طور پر دکھایا گیا۔

مترجم: فرقان احمد

متعلقہ عنوانات