جو رازدار تھے پہلے وہ دشمن جاں ہیں (ردیف .. ے)
جو رازدار تھے پہلے وہ دشمن جاں ہیں
مگر جو دشمن جاں تھے وہ رازدار ہوئے
گناہ خود ہی کیا خود کو پھر سزا دے لی
ہم اپنے ہاتھوں کئی بار سنگسار ہوئے
کبھی فسانہ سنا کر بھی آنکھ نم نہ ہوئی
تمہارے ذکر پہ ہی آج اشک بار ہوئے
ہر ایک چیز کی اس دور میں صفت بدلی
پہاڑ شہر بنے شہر کوہسار ہوئے
وہ پودے جن کے سراپے بڑے ملائم تھے
ہمارے دیکھتے لمحوں میں خار دار ہوئے
گریباں جن پہ بھروسہ تھا ہم فقیروں کو
جنوں کی آنچ سے پل بھر میں تار تار ہوئے
بڑھائیں ان کی طرف دست دوستی کیوں کر
جو گل صفت تھے کبھی فخرؔ اب وہ خار ہوئے