جس میں عمل کا جوش نہیں وہ شباب کیا

جس میں عمل کا جوش نہیں وہ شباب کیا
مستی تو دل میں چاہیے شغل شراب کیا


کیا درد دل محرک خدمت نہیں رہا
جنت ٹھہر گئی ہے بنائے ثواب کیا


یوں ہی نظر اٹھی تھی ذرا دیر کی طرف
ملتا ہے اب یہ دیکھیں حرم سے خطاب کیا


اپنوں سے خوف ہے کہ کہیں غیر ہی نہ ہوں
ہے اس سے بڑھ کے اور جہاں میں عذاب کیا


امید دوستوں سے وفا کی ہے آج تک
اب تک نہیں ملی نظر کامیاب کیا


آخر کہاں سے آ گئیں یہ کج ادائیاں
آدم کی تھی سرشت میں مٹی خراب کیا


حال زبوں کے آئنے دنیا میں ہیں بہت
دیکھی نہیں کبھی کوئی چشم سراب کیا


اپنی بساط جان کے خاموش ہو گیا
شاعر ہوں میں تو دوں گا کسی کو جواب کیا


ہنس ہنس کے ہم نشینوں نے چرکے لگائے امنؔ
ان مہربانیوں کے کرم کا حساب کیا