جھومر

مجھے بھی آج اک جھومر پہننا ہے
امیدوں کا نہ خوابوں اور امنگوں کا
کہ میں نے اس کی لڑیوں میں
حسیں موتی نہیں ٹانکے
کئی آنسو پروئے ہیں
مجھے اس جاں فزا جھومر کو
ماتھے پہ سجانا ہے
زمانے سے چھپانا ہے
نیا اک گھر بسانا ہے
بس اتنا سا
مری یادوں کا
بے رونق فسانہ ہے
مجھے جھومر پہننا ہے