جیتی جاگتی تصویر

مَیں شادی بیاہ کی تقاریب میں جانے سے عموماََ گریز ہی کر تی ہوں مگر آج مجھے مجبوراََ جانا ہی پڑا تھا۔۔۔موڈ خراب ہونے کی وجہ سے مَیں کونے کی ایک میز پراکیلی بے زار سی بیٹھی تھی اور آنے والے مہمانوں کا بے دلی سے جائزہ لے رہی تھی۔۔۔ رنگا رنگ لباس اور جیولر ی کی نمائش میں مصروف خواتین کے میک اپ زدہ چہر وں سے مجھے عجیب سی الجھن محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔اُف! کتنی بناوٹ اوراداکاری ۔۔۔ رات گہری ہونے لگی تھی ۔۔۔مگر بارات کا دُور دُور تک نام و نشان نہ تھا۔۔۔اِس سے پہلے کہ میرا موڈزیادہ خراب ہوتا اچانک میری نظر رخسانہ پر پڑی۔۔۔مَیں نے اپنی آنکھوں کو ایک بار بند کر کے دوبارہ کھولا۔۔۔ یہ میری آنکھوں کا دھوکا ہرگز نہ تھا بلکہ رخسانہ بھی مجھے دیکھ کر میر ی ہی جانب بڑھ رہی تھی۔۔۔ مَیں نے گر م جوشی سے اُسے گلے لگا لیا۔۔۔ رخسانہ میری بچپن کی سہیلی تھی اور اِب ہم دونوں ہی ادھیڑ عمری میں داخل ہو چکے تھے ۔۔۔مَیں نے تو اِب اپنے بالوں کو رنگنا ہی چھوڑ دیا تھا۔۔۔ کیونکہ ادھیڑ عمری اور اُس پر سفید بالوں کا اپنا ہی
گریس ہوتا ہے جس کا مجھے وقتاََ فوقتاََ اندازہ ہوتا رہتا تھا۔۔۔ مگر رخسانہ؟۔۔۔
’ ارے واہ رخسانہ! زبردست ۔۔۔ تم تو کہیں سے بھی ۵۰،۵۵ سال کی عورت نظر ہی نہیں آرہی ہو بلکہ مجھے تو ایسا لگ رہاہے جیسے تم دن
بدن اور جوان ہو تی جا رہی ہو ‘۔ ۔۔
مَیں نے رخسانہ کو خود سے الگ کر تے ہوئے پوچھا ۔۔۔
دراصل رخسانہ سے میر ی ملاقات کافی عرصہ بعد ہوئی تھی اور آخری ملاقات کے وقت وہ بھی میری ہی طرح بوڑھی نظر آنے لگی تھی۔۔۔ مگر اِب اچانک اُس کی کایا پلٹ دیکھ کر مجھے حیر ت ہوئی تھی ۔۔۔کیونکہ اُس کا پورا حلےۂ ہی بدل گیا تھا ۔۔۔کہاں وہ بے ڈول جسم ۔۔۔اور اِب کہاں سلم اور سمارٹ ۔۔۔کہاں وہ ٹوٹتے ہوئے بے رونق بالوں کا الجھا ہوا گچھا ۔۔۔اور اِب کہاں نرم وملائم ر یشم جیسے خوبصورت تراشے ہوئے بال ۔۔۔کہاں وہ ڈھیلے ڈھالے کپڑ ے ۔۔۔اور اِب کہاں جدید تراش خراش کے چست اور تنگ لباس جو پہننے والے کے پورے جسم کے نشیب و فراز کو چیخ چیخ کر بیان کر تا نظر آتا ہو۔۔۔ کہاں وہ چہرہ جس پر بس آنکھوں میں کاجل کی لکیر ہوتی تھی۔۔۔ آج اُس پر نہایت نفاست سے پورا میک اپ کیا ہو ا تھا۔۔۔ مَیں حیرت سے اُسے دیکھے ہی چلی جا رہی تھی۔۔۔ کہ وہ ہنس پڑی ۔۔۔مَیں نے رخسانہ سے پھر وہی سوال کیا۔۔۔ رخسانہ شاید میری کیفیت کو سمجھ چکی تھی اُس کی آنکھو ں میں مجھے آنسو ؤں کی جھلک سی محسوس ہوئی جسے وہ
بڑی خوبی سے چُھپا گئی۔۔۔ اِب تو مجھے یقین ہو گیا کہ اِس کے پیچھے کو ئی بات توضرور ہے ۔۔۔ اتنے میں وہ بولی۔۔۔
’کیا فضول کی باتوں کو لے بیٹھی ہو اتنے دنوں بعد ملی ہو چلو بیٹھ کر کوئی دوسری بات کرتے ہیں‘۔
مگر مَیں بھی کہاں پیچھے رہنے والی تھی فوراََ بولی۔۔۔
’ نہیں ! تمہارے اِس بدلے ہوئے روپ کی وجہ کیا ہے؟ سب سے پہلے یہ بتانا ہو گاورنہ‘۔۔۔
(۲)


مَیں نے اُسے پیار بھر ی دھمکی دیتے ہو ئے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔۔۔
’ کیا کر وگی پوچھ کر! یہ تو ہر عورت کی کہا نی ہے ہر عورت کا دُکھ ہے اور ہر عورت اپنی ازدواجی زندگی میں اِس دور اِس مقام سے ضرور
گزرتی ہے‘ ۔۔۔
وہ سنبھل کر دھیرے دھیرے کہنے لگی۔۔۔
’تم تو جانتی ہو کہ تمہاری اور میر ی عمر یں کیا ہیں؟ ہم عمر کے اُس دور میں ہیں جہاں بزرگی شروع ہوجا تی ہے۔۔۔ جہاں مرد ہو یا عورت
اُس میں سنجید گی اور معتبر ی آجاتی ہے۔۔۔ اور جانتی ہو یہ عورت کی عمر کا وہ دور ہو تا ہے جب اُسے مرد کے سہارے کی سب سے
زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔مگر اُفسوس کہ جب ہم عورتیں اپنی عمر کے اِس معتبر دور میں داخل ہوتی ہیں تو ہمارے مرد وں کے لیے
ہم میں کوئی کشش یا خوبصورتی باقی نہیں رہتی۔ ۔۔اِسی لیے وہ اِدھر اُدھر منہ مارنے۔۔۔ یا تانک جھانک کرنے میں مصروف ہو
جاتے ہیں اور اِس پر بھی اگر بس نا چلے تو دوسری شادی کا ڈراما شروع کر دیتے ہیں۔۔۔ ہم عورتیں اپنے شوہروں اور بچوں کے لیے
اپنی جوانی اور طاقت کو بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔۔ ۔مگر اِس کے بدلے میں ہمیں محبت ۔۔۔ اعتبار۔۔۔اور آخری عمر میں ہماری
حفاظت۔۔ ۔اورتحفظ کی جگہ۔۔۔ ہمیں بے اعتباری۔۔۔ اور سوکن کے خوف میں مبتلا کر دیا جاتا ہے ۔ ۔۔اور بس۔۔۔ مَیں بھی
اِسی خوف کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہوں ‘۔ ۔