اپنی دیدہ وری سے ڈرتی ہوں

اپنی دیدہ وری سے ڈرتی ہوں
ورنہ میں کب کسی سے ڈرتی ہوں


اصل سے نقل بڑھ نہ جائے کہیں
فن صورت گری سے ڈرتی ہوں


مجھ کو اتنا خدا کا خوف نہیں
جتنا میں آدمی سے ڈرتی ہوں


دوستی کی تو بات ہی نہ کرو
میں بہت دوستی سے ڈرتی ہوں


تیرگی تو مری محافظ ہے
ہم نفس روشنی سے ڈرتی ہوں


جس کو انسانیت سے پیار نہ ہو
ایسے ہر آدمی سے ڈرتی ہوں


ڈوب جاؤں نہ میں خودی میں کہیں
اس لیے اس خودی سے ڈرتی ہوں


خود کہیں دل کہیں دماغ کہیں
میں تری بندگی سے ڈرتی ہوں


مصلحت سے جو کام لیتے ہیں
ان کی کم ہمتی سے ڈرتی ہوں


لے نہ ڈوبے تجھے یہ اے رومیؔ
میں تری خود سری سے ڈرتی ہوں