جلوہ اس بت کا چراغ رہ عرفاں نکلا
جلوہ اس بت کا چراغ رہ عرفاں نکلا
دیر سے ہو کے برہمن بھی مسلماں نکلا
بیٹھ کر دل سے نہ پھر تیر کا پیکاں نکلا
ہائے اک پردہ نشیں جان کا خواہاں نکلا
اف رے شوخی کی ادا بزم عزا سے میری
مسکراتا ہوا وہ فتنۂ دوراں نکلا
کس کی زلفوں کا تصور تھا دم فکر سخن
دل سے مضمون جو نکلا وہ پریشاں نکلا
آج اک جام پہ ساقی نے چڑھائی تیوری
عید کے دن بھی ہلال مہ رمضاں نکلا
راہ صحرائے جنوں قیس سے بھی طے نہ ہوئی
ایک اک ذرے میں ایک ایک بیاباں نکلا
نام ہے معرکۂ شعر میں اپنا صفدرؔ
ہاتھ سے میرے نہ اب تک کوئی میداں نکلا