جب شکایت تھی کہ طوفاں میں سہارا نہ ملا

جب شکایت تھی کہ طوفاں میں سہارا نہ ملا
اب کنارے پہ بھی آئے تو کنارا نہ ملا


بے سہاروں کو کہیں کوئی سہارا نہ ملا
کوئی طوفاں نہ ملا کوئی کنارا نہ ملا


ہاتھ اٹھے ہی نہیں ساغر و مینا کی طرف
ہم کو جب تک تری آنکھوں کا اشارا نہ ملا


چل نہ سکتا تھا کبھی اہل ہوس کا جادو
تجھ کو اے دوست کوئی عشق کا مارا نہ ملا


جس نے دیکھا ہمیں دشمن کی نظر سے دیکھا
تیری محفل میں کوئی دوست ہمارا نہ ملا


موت بہتر ہے شمیمؔ اس کے لیے جینے سے
جس کو جینے کے لیے کوئی سہارا نہ ملا