جب سے تم آ گئے فسانے میں
جب سے تم آ گئے فسانے میں
تذکرہ ہے مرا زمانے میں
آنکھ دل روح منتظر ہے تری
دیر کیوں ہو رہی ہے آنے میں
نور و خوشبو سے گھر ہوا معمور
آ گئے تم غریب خانے میں
بھول جاؤ کہا فقط اس نے
عمر لگ جائے گی بھلانے میں
برق تو دور ہی سے چمکی تھی
لگ گئی آگ آشیانے میں
ایک ادنیٰ خوشی بھی مل نہ سکی
کیا کمی تھی ترے خزانے میں
ان کے عیبوں کو جانتا ہوں مگر
وہ بڑے ہیں مرے گھرانے میں
قتل کرتے ہیں چھوٹ جاتے ہیں
کھیل دولت کا ہے زمانے میں
اس نے دیکھا ہے مسکرا کے ایازؔ
طنز مخفی ہے مسکرانے میں