جب محبت کی کوئی نظم سنائی میں نے
جب محبت کی کوئی نظم سنائی میں نے
آگ بہتے ہوئے پانی میں لگائی میں نے
وقت رخصت مرا دل ڈوب رہا ہے لیکن
پھر بھی آنکھوں میں نمی آج نہ لائی میں نے
کچھ صلہ مل نہیں پایا ترے دیوانے کو
شہر کی تیرے عبث خاک اڑائی میں نے
یک بہ یک چار سو کھلنے لگے تن من میں گلاب
اس کی تصویر جو سینے سے لگائی میں نے
قید میں تیرے میں خوش باش جیا کرتا تھا
اس لیے تو کبھی چاہی نہ رہائی میں نے