دل کا دفتر جلا کے دیکھا ہے

دل کا دفتر جلا کے دیکھا ہے
خون اپنا بہا کے دیکھ ہے


ایک رتی بھی نہیں وہ با ذوق
شعر ہم نے سنا کے دیکھا ہے


کارگر کچھ بھی نہیں ہو پایا
اپنا سب کچھ لٹا کے دیکھا ہے


ان کے دل میں نہیں مری چاہت
ہاتھ ہم نے دبا کے دیکھا ہے


روشنی پھر بھی ہو نہیں پائی
ہم نے دل تک جلا کے دیکھا ہے


بھولتا ہی نہیں اسے یہ دل
ہم نے فرخؔ بھلا کے دیکھا ہے