سب مٹ گئے مانگے ہے مگر تیری نظر اور
سب مٹ گئے مانگے ہے مگر تیری نظر اور
اب لائیں کہاں سے بتا دل اور جگر اور
کم خاک غریبان محبت کو نہ جانو
اٹھیں گے اسی خاک سے کل خاک بہ سر اور
ہر ذرہ میں بس ایک ہی ذرہ نظر آئے
گر چشم تماشا کو ملے حسن نظر اور
کب بیٹھ سکے منزل ہستی کو پہنچ کر
آگے جو بڑا اس سے ہے وہ ایک سفر اور
دنیا میں محبت کی کمی ہے تو بلا سے
آباد محبت کریں آ شام و سحر اور
کیا تم کو تکلف ہے مری چارہ گری میں
اک تیر نظر تیر نظر تیر نظر اور
یہ کیا کہ فقط خار ہی قسمت میں لکھے ہیں
اے خانۂ بر انداز چمن کچھ تو ادھر اور
سرورؔ کی کٹی کس طرح آخر شب ہجراں
کچھ تو ہی بتا قصۂ غم دیدۂ تر اور