جاری سفر ہے اپنا سفر کے بغیر بھی
جاری سفر ہے اپنا سفر کے بغیر بھی
ہم چل رہے ہیں راہ گزر کے بغیر بھی
دیوار کے بغیر بھی در کے بغیر بھی
جیتے ہیں کتنے لوگ تو گھر کے بغیر بھی
کیا کیا کیا ذلیل مجھے خواہشات نے
جھکتا گیا ہے سر ترے در کے بغیر بھی
قدروں کا یہ زوال یہ کج فہمیوں کا دور
سب با ہنر ہوئے ہیں ہنر کے بغیر بھی
کمزور ہو گیا ہے شجر اپنی ذات کا
ہر شاخ جھک گئی ہے ثمر کے بغیر بھی
سچی سماعتوں کا زمانہ گزر گیا
نغمے پنپ رہے ہیں اثر کے بغیر بھی
یہ میں شب فراق کی کن منزلوں میں ہوں
سورج نکل رہا ہے سحر کے بغیر بھی
کن واقعوں نے ان کا لہو سرد کر دیا
ڈرتے ہیں لوگ اب کسی ڈر کے بغیر بھی
رہنے دو اس کو اپنی انا کے دباؤ میں
سب کام چل رہے ہیں ہنرؔ کے بغیر بھی