بستی ہے تاریک اجالے کرتا جا

بستی ہے تاریک اجالے کرتا جا
نیکی کر دریا کے حوالے کرتا جا


پڑھنے کی فرصت نہ سہی لیکن پھر بھی
اپنے گھر میں جمع رسالے کرتا جا


شام و سحر پتھریلے رستوں پہ چل کر
خود اپنے پیروں میں چھالے کرتا جا


برسوں سے جو بند ہوئے ہیں لوگوں پر
دور ان دروازوں سے تالے کرتا جا


دنیا کے دھندوں میں الجھا دے خود کو
اپنے سارے گھر میں جالے کرتا جا


کون پڑھے گا تیری کتاب ہستی کو
لاکھ بھی اس کے صفحے کالے کرتا جا


اپنی کہانی پہنچا دے اک اک گھر تک
باقی قصے بھولنے والے کرتا جا


نام ادب میں تیرا بھی چمکے گا ہنرؔ
ذہن اپنا لفظوں کے حوالے کرتا جا