عشق وہ عشق ہے جو جذب و اثر تک پہنچے

عشق وہ عشق ہے جو جذب و اثر تک پہنچے
حسن وہ حسن ہے جو اہل نظر تک پہنچے


دل کے ہاتھوں نہ کسی دل کو ضرر تک پہنچے
لب پر آئی ہوئی کیوں فتنہ و شر تک پہنچے


کیوں محبت میں کوئی نقد و نظر تک پہنچے
مجھ کو توہین وفا کی نہ خبر تک پہنچے


تشنگی ذوق تکلم کی وہی ہے اب تک
اس کے جلوے تو بہت میری نظر تک پہنچے


ایک ہم ہیں جو رہے تابع فرماں ہو کر
ایک تم ہو جو عبث فتنہ و شر تک پہنچے


ناتوانی تھی ہر اک گام پہ مائل لیکن
ہم امیدوں کے سہارے ترے در تک پہنچے


دیکھیے اور ہے کیا اپنے مقدر میں ابھی
ظلمت شب سے تو ہیں نور سحر تک پہنچے


میں تو ہر آگ کو گلزار بنا سکتا ہوں
کون ایسا ہے جو اس حسن نظر تک پہنچے


آپ نے مجھ کو مرے حال پہ چھوڑا ہوتا
آپ بیکار مرے عیب و ہنر تک پہنچے


ان کی فرقت میں مرا شغل یہی تھا دن رات
ہاتھ جب دل سے اٹھے دیدۂ تر تک پہنچے


اے کنولؔ مجھ پہ انہوں نے بھی کرم فرمایا
وہ بھی اب بہر عیادت مرے گھر تک پہنچے