فطرت دل کی مہربانی ہے

فطرت دل کی مہربانی ہے
میں ہوں یا غم کی ترجمانی ہے


غم میں بھی دل کو شادمانی ہے
ان کی شفقت ہے مہربانی ہے


ہر خوشی جن پہ میں نے قرباں کی
کیوں انہیں شوق جاں ستانی ہے


جو بھی ہے داستان اہل وفا
درد و آلام کی کہانی ہے


ہم کہاں قابل غم دل تھے
اک ستم گر کی مہربانی ہے


دل کا رونا ہے اور کچھ بھی نہیں
ہائے کیا چیز یہ جوانی ہے


سوز غم درد رنج ہجر ملال
دل پہ کس کس کی مہربانی ہے


کس قدر ہے عجیب صورت حال
غم ہے دل کو نہ شادمانی ہے


خامشی میں ہے لطف گویائی
یہ بھی اک شان بے زبانی ہے


ایک موہوم سی تمنا کی
دل کی دنیا پہ حکمرانی ہے


مجھ سے ملتے ہو بے نیازانہ
یہ بھی انداز دل ستانی ہے


داغ دل کا کہیں نہ مٹ جائے
یہ تمہاری ہی اک نشانی ہے


اے محبت یہ کیا کیا تو نے
بد گمانی ہی بد گمانی ہے


زندگی بھر فریب کھائے ہیں
دوستوں کی یہ مہربانی ہے


ہم سر راہ لٹ گئے یکسر
رہبروں کی یہ مہربانی ہے


اے کنولؔ انتہائے شوق نہ پوچھ
رات دن شغل نغمہ خوانی ہے