ہر اک درد و غم کی دوا ہو گئے
ہر اک درد و غم کی دوا ہو گئے
مرے دل کا وہ مدعا ہو گئے
جو لب پر تھے نالے رسا ہو گئے
مرے حق میں پیہم دعا ہو گئے
ادھر جذب دل کامراں ہو گیا
ادھر ان کے وعدے وفا ہو گئے
تری یاد میں گم ہوئے اس قدر
ہر اک قید غم سے رہا ہو گئے
کسی غم کو بھی جو نہ خاطر میں لائے
ترے غم میں وہ مبتلا ہو گئے
مرے غم کا افسانہ سن سن کے وہ
غنیمت ہے درد آشنا ہو گئے
وہی زخم جو دل پہ تھے اے کنولؔ
گلوں کی طرح خوش نما ہو گئے