عشق جو والہانہ ہوتا ہے

عشق جو والہانہ ہوتا ہے
خود کو ہی آزمانا ہوتا ہے


صرف الفاظ ہی نہیں ہوتے
شعر پورا زمانہ ہوتا ہے


کشتیاں اور لوگ لاتے ہیں
میں نے دریا بنانا ہوتا ہے


مبتلا بے نشاں نہیں ہوتے
ان کا اپنا گھرانا ہوتا ہے


لوگ کرتے ہیں عشق کی باتیں
میں نے کرکے دکھانا ہوتا ہے


وصل تنہا نہیں ہے اس کے جناب
ہجر شانہ بہ شانہ ہوتا ہے


ہم کسی کو پیام دیتے ہیں
شعر تو اک بہانہ ہوتا ہے


میں مزاجاً فقیر ہوں میرا
ہر سخن عاجزانہ ہوتا ہے