عشق ہے نام مرا حسن کا شیدائی ہوں

عشق ہے نام مرا حسن کا شیدائی ہوں
بات یہ اور کہ محروم پذیرائی ہوں


قافلے غم کے جہاں رکتے ہیں دم لینے کو
میں وہی سایۂ دیوار شکیبائی ہوں


کچھ اس انداز سے اٹھتی رہی حاسد کی نظر
جیسے میں ہی سبب انجمن آرائی ہوں


نکتہ چیں میرے مرے خوں کی سفیدی پہ نہ جا
میں نئے دور کے بھائی کا سگا بھائی ہوں


مصرعۂ تر کے کبھی پاؤں پھسل جاتے ہیں
جیسے میں راہ تخیل پہ جمی کائی ہوں


گن لئے اڑتے ہوئے طائر لاہوت کے پر
کون کہتا ہے کہ گم کردۂ بینائی ہوں


کم نظر ہیں وہ جو کمزور سمجھتے ہیں مجھے
ایٹمی دور کی طاقت ہوں توانائی ہوں


دل دہل جاتے ہیں فولاد سی چٹانوں کے
شور تنہائی ہوں آوازۂ برنائی ہوں


یہ مرا اپنا طریقہ ہے خود آگاہی کا
خود تماشا ہوں افقؔ خود ہی تماشائی ہوں