عشق اب تک ہے پرانی اک تری تصویر سے

عشق اب تک ہے پرانی اک تری تصویر سے
روز کرتی ہوں شکایت کاتب تقدیر سے


میں نمازی میں ہی پنڈت رب خدا سب ایک ہے
گھونٹ دو گردن بھلے تم مذہبی زنجیر سے


دے نہ پائے لوگ جیتے جی اگر عزت مجھے
کر رہے ہیں کیوں جنازے کو وداع توقیر سے


اہمیت اب ہے کہاں انسان میں جذبات کی
تولتے ہیں آج کل ہر چیز کو جاگیر سے


یہ تبسمؔ ہی ہے میرا اسلحہ سب سے بڑا
جیتنا ممکن نہیں ہر جنگ بس شمشیر سے