اس طرح سے عذاب تک آئے
اس طرح سے عذاب تک آئے
نیند آئی نہ خواب تک آئے
فاختاؤں کا جھنڈ اڑتے ہوئے
چاہتا ہوں کے آب تک آئے
جو سراپا سوال لگتا ہو
اس کو کیسے جواب تک آئے
آنکھوں آنکھوں میں اس کو سجدہ کیا
گویا کار ثواب تک آئے
اس لئے خامشی سے بیٹھا ہوں
کوئی رستہ جناب تک آئے
راستے میں ہزار کانٹے ہیں
کیسے خوشبو گلاب تک آئے