اس قدر دور سمجھنے لگے وہ دل سے مجھے

اس قدر دور سمجھنے لگے وہ دل سے مجھے
موت کیا نیند بھی اب آئے گی مشکل سے مجھے


دی حیات ابدی اس نے گلے سے مل کر
مل گئی داد وفا خنجر قاتل سے مجھے


دے چکے غیر کو دل ان سے کچھ امید نہیں
اپنے پہلو میں جگہ دیں گے وہ کس دل سے مجھے


دل بیتاب سنبھالے سے سنبھلتا ہی نہیں
یہ نکلوا کے رہے گا تری محفل سے مجھے


لے گئے آج یہ کہہ کر وہ مرے پہلو سے
ہے محبت بہت ارمان بھرے دل سے مجھے


شکوے کرتا ہوں تغافل کے تو کہتا ہے کوئی
بات ہی کیا ہے بھلا دیجئے اب دل سے مجھے


اس طرح فکر سخن نے مجھے کھویا صفدرؔ
موت بھی ڈھونڈھے تو اب پائے گی مشکل سے مجھے