عنایت اس قدر اللہ اکبر اپنے بسمل پر
عنایت اس قدر اللہ اکبر اپنے بسمل پر
کلیجے پر کبھی وہ ہاتھ رکھتے ہیں کبھی دل پر
مجھے وہ ذبح کر کے اس لئے منہ کو چھپائے ہیں
قیامت ہو کہیں گر چاندنی پڑ جائے بسمل پر
در دولت پہ دوں چل کر فقیرانہ صدا اک دن
سنا ہے در تک آ جاتے ہیں وہ آواز سائل پر
تسلی اور چٹکی لے گی بے تابی کے پہلو میں
کہیں تم ہاتھ رکھ دینا نہ اس ٹھہرے ہوئے دل پر
تمہارے مرنے والوں پر زمانہ رشک کرتا ہے
مزے سے پاؤں پھیلائے ہوئے سوتے ہیں منزل پر
کلام عاشقانہ سن کے ہر شاعر یہ کہتا ہے
تمہاری نظم صفدرؔ بڑھ گئی ہے نظم بیدلؔ پر