اک تسلسل سے ایک اذیت کو جانب دل اچھالتا ہے کوئی

اک تسلسل سے ایک اذیت کو جانب دل اچھالتا ہے کوئی
ایک مشکل سے نیم جاں ہو کر خود کو کیسے سنبھالتا ہے کوئی


بجھتی پلکوں سے تاکتی وحشت شکر کر ہم تجھے میسر ہیں
ہمیں جو روگ ہو گئے لاحق دیکھ وہ بھی اجالتا ہے کوئی


امتحاں میں پڑے ہوئے یہ لوگ اک تأسف سے دیکھتا ہے جہاں
ہائے ایسے خراب حالوں کے کہاں شجرے کھنگالتا ہے کوئی


گرد راہ سفر ہی ہیں ہم لوگ عین ممکن ہے بھول جاؤ ہمیں
جس طرح گھر کا فالتو ساماں بے دلی سے نکالتا ہے کوئی


بعد میرے بھی کتنے لوگ آئے تم کو اچھے لگے تمہارے ہوئے
کیا کبھی چپ کی ساعتوں میں تمہیں مری طرح سنبھالتا ہے کوئی