اک تعلق نہیں سنبھلا تو بھنور تک پہنچا

اک تعلق نہیں سنبھلا تو بھنور تک پہنچا
دیکھتے دیکھتے پانی مرے سر تک پہنچا


تجھ سے بچھڑے تو نہ راس آئی کوئی بھی منزل
پھر جنوں میرا تری راہ گزر تک پہنچا


اس قدر دھوپ میں شدت تھی کہ گھبرا کر دل
سائے کی آس میں بے سایہ شجر تک پہنچا


کھو گیا دن کے اجالوں سے ملا کر مجھ کو
ایک ستارہ جو مرے ساتھ سحر تک پہنچا


اک تکبر سے ہنر عیب میں تبدیل ہوا
عیب احساس ندامت سے ہنر تک پہنچا


ایک بے سمت بگولا تھا وہ نصرتؔ جس نے
شکل انسان کی دھاری مرے گھر تک پہنچا