ہجوم یاس میں جینا بھی اک عذاب ہوا
ہجوم یاس میں جینا بھی اک عذاب ہوا
یہی ہوا کہ محبت میں دل خراب ہوا
چھپا ہوا ہے جو چہرہ حیا کے دامن میں
نہ کوئی آئینہ اس حسن کا جواب ہوا
بہم الجھتے رہے شیخ و برہمن اب تک
جو ہم اٹھے تو زمانے میں انقلاب ہوا
تمہارے حکم پہ ہستی مٹا چکے ہم تو
مگر ہماری وفاؤں کا کیا جواب ہوا
مری نوا سے لرزنے لگا نظام کہن
مرا پیام ضیاؔ وجہ انقلاب ہوا