ہوا کم نہ جس کا اثر زندگی بھر
ہوا کم نہ جس کا اثر زندگی بھر
نظر میں رہی وہ نظر زندگی بھر
ہم ان کے تصور میں کھوئے ہوئے ہیں
نہ ہو ان کو شاید خبر زندگی بھر
ہمارے تصور میں تھا جس کا نقشا
نہ پایا ہمیں وہ ہی گھر زندگی بھر
نہ آئے گا وہ لوٹ کر یہ خبر تھی
رہا منتظر میں مگر زندگی بھر
کہیں بے ہنر ہم اسے کس ہنر سے
نہ آیا ہمیں یہ ہنر زندگی بھر
وہ میری اڑانوں سے خائف تھا شاید
کترتا رہا میرے پر زندگی بھر
نہ اترے گا احسان اک پل کا واجدؔ
کریں ماں کی خدمت اگر زندگی بھر