فکر و تخیلات کے پر زندہ ہیں ابھی
فکر و تخیلات کے پر زندہ ہیں ابھی
بوڑھے ضرور ہیں یہ مگر زندہ ہیں ابھی
سائے میں زندگی کو بتانے کے واسطے
راہ حیات کے وہ شجر زندہ ہیں ابھی
اس کو لگا کی چاہنے والے نہیں میرے
لیکن اسے ملی یہ خبر زندہ ہیں ابھی
مایوس و نا امید نہ ہوں گے کبھی بھی ہم
امید کے یہ شمس و قمر زندہ ہیں ابھی
ہم یہ سمجھ رہے ہیں کے وہ مر چکے مگر
اپنے ہنر میں اہل ہنر زندہ ہیں ابھی
اپنی جگہ ہے ترک تعلق کی خودکشی
جو ساتھ میں کیے تھے سفر زندہ ہیں ابھی
اپنے غم و خوشی کو چھپائیں تو کس طرح
واجدؔ جہاں میں اہل نظر زندہ ہیں ابھی