ہماری آنکھ سے اکثر نظارے چھوٹ جاتے ہیں
ہماری آنکھ سے اکثر نظارے چھوٹ جاتے ہیں
سفر میں ہم سفر بن کر ہمارے چھوٹ جاتے
ہمارے ہاتھ سے خوشیاں نکل جائیں تو غم کیسا
فلک کے ہاتھ سے بھی تو ستارے چھوٹ جاتے ہیں
کبھی کشتی مری خود چھوڑ دیتی ہے کناروں کو
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کنارے چھوٹ جاتے ہیں
ندامت کے کبھی دو چار آنسو بھی ضروری ہیں
یہ وہ پانی ہے جس سے داغ سارے چھوٹ جاتے ہیں
خیال آتا ہے جب تم سے بچھڑ کر زندہ رہنے کا
پسینے تن بدن سے ڈر کے مارے چھوٹ جاتے ہیں
برے منظر نہ پھر واجدؔ تمہارے سامنے آئیں
وہ یاد آتے ہیں تو اشکو کے دھارے چھوٹ جاتے ہیں