ہاؤس ہوسٹس

ایرکنڈیشنڈ آفس میں ایزی چےئر پربھی مسٹرچوپڑادباؤ اور تناؤ لیے بیٹھے تھے۔وہ ایک نئی قسم کے بواسیر میں مبتلاتھے۔مسّے ان کے دماغ میں تھے۔جس دن مسّے زیادہ پھول جاتے مسّوں میں ہل چل سی مچ جاتی اوردباؤ سے چہرے کا تناؤ بڑھ جاتا۔
آفیسر بیگ میز پر کب سے تیارپڑا تھا مگر وہ اسے اُٹھانہیں پارہے تھے،جیسے اس میں کسی نے آتش گیر مادہ رکھ دیاہو۔آتش گیرمادہ تواس میں نہیں تھا مگر گھرجاکر جب بھی وہ بیگ رات میں کھلتاتودھماکاضرور ہوجاتا۔کاغذوں کے پھیلتے ہی گھرمیں بھونچال آجاتا۔ ماحول کی دھجّیاں بکھرجاتیں۔درودیوار میں دھواں بھرجاتا۔یہ اور بات ہے کہ گھرکے بھونچال،ماحول کے بکھراؤ اور درودیوارکے دھویں کا سبب صرف یہ بیگ ہی نہیں تھابلکہ گھر کے اردگرد آئے دن کھلنے والے وہ بکسیز بھی تھے جن سے نکلنے والاتیزرنگوں اور بوؤں کا بارودی غبارکھڑکیوں، دروازوں اور روشن دانوں سے گھس کر دل ودماغ پر چڑھتا اور سانسوں میں بستاجارہاتھا۔کچھ اورچیزیں بھی تھیں جو باہری دباؤ کے باعث اندرسے اٹھ رہی تھیں اوران سب سے گھرکاتوازن بگڑ تاجارہاتھا۔
گھرکے بگڑے ہوئے توازن سے نکلنے والی بے ہنگم،کرخت اور بے رس آوازیں حسبِ معمول مسزچوپڑا کے کانوں میں ادھم مچا رہی تھیں اور توازن کے اس بگاڑسے بننے والی بد رنگ بے کیف اور بدہےئت صورتیں آنکھوں میں بچھوؤں کی طرح اپنا ڈنک چبھورہی تھیں۔
مسٹرچوپڑاکے مشتعل مسّوں کا ایک علاج سنکائی ضرورتھاجس کا انہیں تجربہ بھی تھا۔ وہ کسی باریاکیبرے میں چلے جاتے۔ شراب کا نشہ انہیں سن کردیتا یا کیبرے ڈانسرکے عریاں بدن سے نکلنے والی گرمی وماغ کے مسّوں کوگرما کرنرم بنادیتی۔کولھوں کے جھٹکوں سے انہیں آرام مل جاتا مگر گھر پہنچتے ہی سوئے ہوئے مسّے اپنی آنکھیں کھول دیتے۔
جب بھی تناؤ بڑھتامسٹرچوپڑاکا ذہن ادرھرادھر بھٹکتا ہوااپنی فیکٹری کے بنے کھلونوں پرآکررک جاتا۔ان کے سامنے طرح طرح کے کھلونے گھومنے لگتے۔ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے جوروتے بچّوں کوہنسادیتے،ضدّی بچّوں کی ضدکودبادیتے ،ان کا دھیان ایک طرف سے دوسری جانب موڑدیتے،اپنے کرتب سے بچّوں کے پیٹ میں گدگدیاں بھردیتے۔پژمردہ چہروں پرشادابیاں سجادیتے۔ویران آنکھوں میں چراغ جلادیتے۔
آج بھی ان کا ذہن کھلونوں پرآکررک گیاتھا۔
کھلونوں کے سامنے بچّوں کی جگہ جوان اوربوڑھے کھڑے تھے،جن کی ویران آنکھیں، کھنچے ہوئے چہرے ،خشک ہونٹ،پرشکن پیشانی،سخت سپاٹ پیٹ،سب کے سب کھلونوں کی سمت ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔
’’سرابھی تک——‘‘مسٹر چوپڑا آوازپرچونک پڑے۔سامنے ان کے مینجر ملہوترا کھڑے تھے۔
’’ہاں مگرآپ!مسٹر چوپڑا نے ملہوترا کی طرف تعجب سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’سرآپ کو ایک خوش خبری سنانی ہے۔‘‘
’’سنائیے۔‘‘
’’آپ کے خوابوں کی تعبیرمل گئی سر!‘‘
’’کون سے خواب؟کیسی تعبیر؟‘‘مسٹرچوپڑا کی آنکھیں پھیل گئیں۔
’’سرہم نے ہاؤس ہوسٹس تلاش کرلی ہے۔‘‘
ہاؤس ہوسٹس؟
’’یس سر!‘‘
مسٹر چوپڑاکے ذہن میں ہوائی جہازاڑنے لگے ۔آس پاس خلائی دوشیزائیں سجی سنوری مہکتی اور مسکراتی ہوئی پھرنے لگیں۔ شگفتہ جسموں کی تازگی دل ودماغ کو تروتازہ کرنے لگی۔
سفرکی گردچھٹنے لگی۔تناؤ ڈھیلاپڑنے لگا۔کاروباری اُلجھنوں،گھریلو جھمیلوں، سودوزیاں کی جھنجھٹوں اور جھنجھلاہٹوں سے مکتی ملنے لگی۔ماضی کی تلخیوں پرپردہ پڑگیا۔مستقبل کی چنتاؤں پر غلاف چڑھ گیا۔حال ہواکی طرح ہلکا ہوگیا۔
’’کیاسچ مچ ہاؤس ہوسٹس مل گئی؟‘‘
’’یس سر!‘‘
’’کیا یہ ہاؤس ہوسٹس بھی ویسی ہی ہوگی جیسی کہ جہازوں میں ہوتی ہیں جوپورے سفر میں ہرایک مسافرکی شریک حیات بنی رہتی ہیں،جن سے بناضرورت بولنے کو جی چاہتاہے۔ بنا بھوک پیاس کے بھی جن سے کھانے پینے کی چیزوں کی فرمائش کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ جنھیں ہر کوئی اپنی آنکھو ں میں قیدکرلیناچاہتا ہے۔جن کی بدولت ہوائی جہازکا سفرہواکی طرح سبک ہوجاتا ہے؟
’’سران سے بھی بہتر ہے ہماری ہاؤس ہوسٹس۔‘‘
کیا؟’’آنکھوں کے ساتھ مسٹر چوپڑا کے ہونٹ بھی پھیل گئے۔
’’میں سچ کہہ رہاہوں سر!آپ کے خوابوں کی تعبیرکی تلاش میں ہم کئی ہوائی میزبانوں کے گھربھی گئے مگرگھروں کے اندران کے جسموں پر ہوائی جہازوالا رنگ و نورنظرنہ آیا۔ان کا چہرہ پھیکا،باسی اوربوسیدہ لگا۔ان سے بات کرتے وقت ان کے لہجوں میں جھنجھلاہٹ اور اکھڑپن بھی محسوس ہوا۔سر !ہم نے جوہاؤس ہوسٹس حاصل کی ہے اس کا رنگ وروپ ہمیشہ تروتازہ رہے گا۔ اس کا لب ولہجہ بھی سداپرسکون اورپرکیف بنارہے گا۔‘‘
’’مجھے یقین نہیں آرہاہے۔‘‘
’’یقین آجائے گا!جب آپ اسے دیکھیں گے۔‘‘
’’میں جلد سے جلد دیکھناچاہتاہوں۔‘‘
’’میں تواسی لیے حاضر ہواہوں سر۔‘‘
مسٹر چوپڑا اسپرنگ کی طرح اچھل کراپنی کرسی سے اترے اور ملہوترا کے پیچھے پیچھے اپنی فیکٹری کے گیسٹ ہاؤس تک پہنچ گئے۔ملہوترا نے آگے بڑھ کر کال بٹن کو دبادیا۔بٹن کے دبتے ہی دروازہ کھل گیا۔
ایک نہایت حسین وجمیل دوشیزہ نے جاں بخش مسکراہٹ سے استقبال کیا۔ مسٹر چوپڑا کی نگاہیں دوشیزہ کے مقناطیسی رنگ وروپ پرکسی کمزور لوہے کی طرح فوراً چپک گئیں۔ متناسب، سڈول،شگفتہ،شاداب اور پرآب جسم نے مسٹر چوپڑا کے پژمردہ اورویران آنکھو ں کے آگے رنگ ونوربکھیردیے۔
چند لمحے بعد اس حسنِ مجسم کے لب لعلیں بھی کھل گئے۔
’’یہ کیا؟آپ نے پھر چہرے کوتَناؤ سے بھرلیا؟میں کہتی ہوں آخراتنی سوچ فکرکیوں؟ یہ بھاگ دوڑکس لیے؟——زندگی مسکرانے کے لیے ملی ہے،اُداس ہونے کے لیے نہیں۔میں اس چہرے پرپھول دیکھنا چاہتی ہوں،خارنہیں۔آئیے گرم پانی تیارہے،منہ ہاتھ دھولیجیے،کچھ ریلیف مل جائے گا۔‘‘
مسٹر چوپڑا حیرت واستعجاب سے اس حسینہ کی طرف دیکھتے ہوئے باتھ روم کی جانب بڑھ گئے۔اس کی آواز کاجادواورلہجے کی اعتمادی قوت نے انہیں واش بیسن تک پہنچادیا۔باتھ روم سے باہر نکلے تووہ پھران کے پاس آگئی۔
’’کیالیں گے؟چائے ،کافی؟یاکوئی سافٹ ڈرنک؟ کہےئے تووہسکی کا ایک پیگ بنادوں؟‘‘
مسٹر چوپڑا اس کی آنکھوں کے پرخلوص بھاؤ اور باتوں کے مترنم بہاؤ میں بہنے لگے۔ چہرے کا کھنچاؤ کم ہونے لگا۔بوجھل من سبک ہونے لگا جیسے ان کے مسّوں کو ٹھنڈک پہنچ گئی ہو۔
’’سر!اب ذرااس کاایک دوسرا رول دیکھیے۔ملہوترا نے ایک اسکول بوائے کوبلوایا جو اپنی پیٹھ پرکتابوں کا بستہ لادے ایک دوسرے کمرے میں تیار بیٹھاتھا۔بچّہ اشارہ پاکر دروازے کی طرف بڑھا۔پیچھے پیچھے دروازے تک ہاؤس ہوسٹس بھی پہنچ گئی۔
’’دیکھو بیٹے!ٹھیک سے اسکول جانا۔راستے میں کہیں اِدھر اُدھر نہ رکنا۔چھٹی ہونے پر سیدھے گھرپہنچنا۔ لنچ ٹائم میں لنچ ضرور کھالینا۔بھولنا نہیں۔پیاس لگے توپانی صرف اپنی بوتل کا پینا۔اورسنو ایک قدم آگے بڑھ کر اس نے بچّے کی پیشانی پرایک پیاربھر ا بوسہ ثبت کردیا۔
بچّہ لمسِ محبت سے سرشار ہوکر جھومتاہوا آگے بڑھ گیا۔
ہاؤس ہوسٹس کے ہونٹوں سے چھلکتی ہوئی ممتا مسٹر چوپڑا کے من کے پیالے میں بھرگئی۔ ان کا سراپامعصوم بچّے کی طرح مسکرااُٹھا۔
’’سرایک اورروپ ملاحظہ فرمائیے۔‘‘ملہوترانے آگے بڑھ کر دروازہ بندکردیا۔
تھوڑی دیربعدکال بیل بجی اورہاؤس ہوسٹس دروازے پرپہنچ گئی۔دروازہ کھلا۔سامان سے لدی پھندی ایک عورت اندرداخل ہوئی۔
’’میم صاحب!شاپنگ کیسی رہی؟لگتا ہے آپ بہت تھک گئی ہیں۔بیٹھیے پہلے میں آپ کے لیے گرماگرم کافی لاتی ہوں۔پھر آپ کے جسم کا مساج کردوں گی۔آپ پھرسے فریش ہوجائیں گی۔‘‘
’’کیسی لگی سر؟‘‘
’’بہت اچھّی۔بہت ہی پیاری۔ایک دم فنٹاسٹک!‘‘
’’تھینک یوسر!‘‘
’’مگرملہوترا!‘‘
’’سر؟‘‘
’’گھر کے اندرجاکر کہیں یہ بھی ایرہوسٹس کی طرح باسی اورپھیکی تونہیں ہوجائے گی۔‘‘
’’بالکل نہیں سر!ذرااسے غور سے تودیکھیے۔اس کی جلد میں جوکساؤ ہے وہ کبھی ڈھیلا نہیں پڑے گا۔ اوراس کا رنگ تواتنا پختہ ہے کہ کسی بھی موسم کا واراسے پھیکانہیں کرسکتا۔اوراس کے لب ولہجے میں ایسی جاذبیت ہے کہ قیامت تک بھی ختم نہیں ہوگی۔‘‘
’’توکیا یہ——؟‘‘حیرت سے مسٹر چوپڑا ملہوتراکی طرف دیکھنے لگے۔
’’یس سر!‘‘
’’ونڈرفل !میں تو سمجھ رہاتھا کہ——بھئی ملہوترا تم نے واقعی کمال کردیا۔آئی ایم پراؤڈ آف یو۔‘‘
’’سر!کمال تو اس کا ہے جو اس کے اندرہے۔جواتنا sensativeہے کہ پیروں کی چاپ سے سمجھ جاتا ہے کہ آنے یاجانے والامردہے یاعورت ہے۔ جوان ہے یابوڑھاہے۔ یابچّہ ہے۔ جویہ بھی محسوس کرلیتاہے کہ کوئی آرہاہے یا جارہاہے۔ جسے وقت کا بھی احساس رہتا ہے اورجو جنس، عمر،وقت،حیثیت،موقع،ماحول،موسم سب کو نگاہ میں رکھتا ہے اورااسی کے مطابق اپنا رول پلے کرتا ہے۔‘‘
’’واہ ملہوترا واہ !آج پتہ چلا کہ تم ایک کامیاب بزنس مین اوراچھّے سائنس داں ہی نہیں بلکہ ایک عظیم تخلیق کاربھی ہو۔سچ مچ تم نے میرے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈنکلالی ہے ۔اب جلد سے جلد یہ تخلیق میر گھرپہنچ جانی چاہیے۔
’’سر!لیکن ایک درخواست ہے‘‘
’’بولو‘‘
’’سر ہم اس کی نمائش کرناچاہتے ہیں اگر آپ اجازت دیں تو۔‘‘
’’ مسٹر چوپڑا سوچ میں پڑگئے‘‘کچھدیرکے بعد بولے۔
’’ٹھیک ہے مگر نمائش میں دیرنہیں ہونی چاہیے۔‘‘
’’بالکل دیر نہیں ہوگی سر!‘‘
بہت جلد نمائش کی تیاریاں مکمل کرلی گئیں۔ہاؤس ہوسٹس نمائش کے لیے شہرکے سب سے بڑی آرٹ گیلری میں رکھی گئی۔دیکھنے والوں کاتانتا لگ گیا۔ہاؤس ہوسٹس کے مختلف طرزوں اور روپ کا مظاہرہ دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے۔
نمائش کے بعد ملہوترا نے ایک موٹاسارجسٹر مسٹر چوپڑا کے سامنے رکھ دیا۔
یہ کیا ہے؟
’’سر! اس میں لوگوں کے کمنٹس Commentsہیں۔‘‘
مسٹر چوپڑا نے رجسٹرکھول کراِدھر اُدھر سے پڑھناشروع کیا۔
’’آپ کی فیکٹری نے یہ ایک ایسا جاندار کھلونابنایاہے جو بے جان جسموں میں بھی جان ڈال دیتاہے اورجوبچّہ،بوڑھا،جوان،مرد،عورت سب کے لیے کشش رکھتاہے۔
(رپورٹر)
’’اس تخلیق کودیکھ کرمیری طرح بہت سے،ادیب تخلیق کرنابھول جائیں گے۔‘‘
(ادیب)
’’آپ اسے بیچناچاہیں تومیں اس کے منہ مانگے دام د ے سکتا ہوں۔‘‘
(تاجر)
’’روبوٹ سائنس کی ایک بہت بڑی دین ہے مگر اس میں خوبصورتی پیدانہیں کی جاسکی۔ آپ نے اس ماڈل کو حسن عطاکرکے سائنس کو بہت آگے بڑھادیاہے۔
(سائنس داں)
’’آپ اسے میر گھرپہنچادیجیے۔بدلے میں جوچاہے کرالیجیے‘‘ (منسٹر)
’’مجھے یہ اتنی اچھّی لگی کہ میں اپنے ممی پاپاکوبھی بھول گئی۔‘‘ (طالبہ)
’’میں ایک کم تنخواہ والاملازم ہوں۔اسے خریدنہیں سکتا۔اس لیے جی چاہتا ہے اسے چراکراپنے گھرلے جاؤں۔‘‘ (ٹیچر)
’’نوکری اگرنہیں،تویہ ہاؤس ہوسٹس ہی مجھے دے دی جائے۔‘‘
(بے روزگار)
’’یہ تواتنی قیمتی ہے کہ اگراس کی اسمگلنگ کی جائے توہیرا،سونا،چرس، حشیش، افیون، براؤن شوگر سب پرپانی پھرسکتا ہے۔ (اسمگلر)
’’اتنی پیاری چیزکوآپ نے یہاں بندکررکھا ہے۔اسے گھرلائیے نا۔‘‘


مسز اوشاملہوترا ،وائف آف ایم۔آر۔ملہوترا
مینجر ٹوائز کمپنی
(مجموعہ پارکنگ ایریا ازغضنفر، ص 216)