ہونی ہوں کسی حال میں ٹلنے کی نہیں ہوں

ہونی ہوں کسی حال میں ٹلنے کی نہیں ہوں
میں وقت کے ہاتھوں سے نکلنے کی نہیں ہوں


یہ بات سہی ٹوٹ کے بکھری تو بہت ہوں
یہ بات غلط ہے کہ سنبھلنے کی نہیں ہوں


لگتا ہے جڑیں پھیل گئی ہیں مری تجھ میں
اکھڑی تو کہیں پھولنے پھلنے کی نہیں ہوں


پہچان زمانے میں یہی ہے مری اب میں
کردار کہانی میں بدلنے کی نہیں ہوں


میں ہوں پس منظر کی بھی تکمیل میں شامل
بس اس لیے منظر سے نکلنے کی نہیں ہوں


بے خوف جو سچ بولتا رہتا ہے ہمیشہ
وہ آئنہ اپنا میں بدلنے کی نہیں ہوں


وحشت ہے بہت خون میں نصرتؔ اسی ڈر سے
صحرا کی طرف جا کے ٹہلنے کی نہیں ہوں