حکایتیں اور کہانی

اس نے کشکول اُٹھا تو لیا تھا مگر اس کی انگلیاں کپکپارہی تھیں۔
وہ کشکول لیے چوراہے پر کھڑا تھا۔
اسے کچھ حکایتیں یاد آرہی تھیں:
’’ایک بادشاہ کے پاس بے شمار دولت تھی مگر بادشاہ اس دولت میں سے ایک پائی بھی اپنے اوپر خرچ نہیں کرتا تھا۔اس لیے کہ اس میں لوٹا ہو امال اور مانگا ہوا خراج شامل تھا۔بادشاہ اپنے ہاتھوں سے ٹوپیاں بناتا تھا اور انھیں بازار میں بیچتا تھا۔جو آمدنی ہوتی تھی اس سے وہ اپنی ضرورتیں پوری کرتا تھا۔‘‘

’’ایک بھوکے درویش کے آگے انواع و اقسام کی نعمتیں لیے لوگ کھڑے رہے اور وہ فاقے کرتا رہا۔ ایک دن وہ درویش فاقے سے مرگیامگراس نے کسی کی بھیک قبول نہیں کی‘‘

ہر حکایت پر انگلیوں کی کپکپاہٹ بڑھ جاتی اور گرفت ڈھیلی پڑجاتی۔
آنے جانے والے لوگ کشکول میں کچھ نہ کچھ ڈالتے جارہے تھے۔ ایک نے گلا ہو اکیلا ڈالا۔
اس کی نظر یں کیلے سے چپک گئیں
پچکے ہوئے سیاہ چھلکے والے کیلے کا ایک سراپھٹ گیا تھا جس سے گلا ہوا گوداباہر نکل آیا تھا۔ایسا لگتا تھا جیسے کیلے کے اس سِرے پر کسی نے پکا ہوا بلغم تھوک دیا ہو۔اس سوکھے سیاہ رنگت والے پچکے ہوئے چھوٹے سے کیلے کو دیکھ کر اسے محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے کشکول میں کچلی ہوئی کوئی چوہیاڈال دی ہو۔
ایک صاحب نے اپنی پلیٹ کا جو ٹھن سمیٹ کر کشکول میں پلٹ دیا۔دال اور دہی میں سناہوا چاول دیکھ کر اسے لگا جیسے کسی نے کشکول میں اُلٹی کردی ہو۔اسے محسوس ہوا جیسے اس کے ہاتھ میں کشکول نہیں کوئی ڈسٹ بین ہو۔ کراہت کا ایک بھپکا اس کے اندرون تک سرایت کرگیا۔
کسی نے ایک سکّہ پھینکا مگر سکّے سے کھن کی آواز نہیں ابھری۔
کوئی میلا کچیلا مڑاتڑا گلا ہوا ایک روپے کا نوٹ ڈال گیا۔
ایک صاحب ایک گھسی ہوئی اٹھنی ڈال گئے۔
اسے محسوس ہوا جیسے لوگ اسے اندھا بھی سمجھ رہے ہیں ۔اندھا سمجھنے والوں کی جانب اس کی آنکھیں اس طرح اٹھتیں جیسے وہ ان کی آنکھیں پھوڑ ڈالیں گی۔
’’ سالا ہٹّا کٹّا ہوکر بھیک مانگتا ہے‘‘۔ ایک صاحب ایک گندی سی گالی پھینک کر آگے بڑھ گئے۔
اس کے بائیں ہاتھ کی مٹھّی بھِنچ گئی۔
ایک اور صاحب رکے اور اپنی قہر آلودنگاہوں سے اس کی جانب نفرت اور حقارت کے تیر برساکر چل دیے۔
اس کی بھویں کھِنچ گئیں۔
ایک شخص نے ترحم کی نظر سے دیکھتے ہوئے پرس سے کڑ کڑا تا ہوا ایک پانچ روپے کا نوٹ نکالا اور اس نوٹ کو اس کی آنکھوں کے سامنے عجب انداز سے لہراکر کشکول میں ڈال دیا۔
اس کے جی میں آیا کہ وہ اس نوٹ کو پھاڑکر اس آدمی کے منہہ پر دے مارے۔
آنے جانے والے کشکول میں گلے سڑے پھل،جوٹھن،گھسی ہوئی اٹھنی، چونی ، سکّے ،پھٹے ہوئے میلے کچیلے نوٹ، گالی، نفرت،حقارت،ترحم ڈالتے چلے گئے ۔
اس کے کشکول کا وزن بڑھتا گیااور ذہن و دل کا دباؤ بھی۔ سینے میں ایک جذبہ اٹھااور کشکول والے ہاتھ میں سماگیا۔ہاتھ مشتعل ہوا۔ انگلیوں کی گرفت بھی ڈھیلی ہوئی مگر کشکول ہاتھ سے جدانہ ہوسکا۔
اس کے ذہن میں دونوں حکایتیں دوبارہ اُبھریں:
پہلی حکایت میں باشاہ تھا جس کے شاہی خزانے میں بے شمار دولت تھی اور جس کے ہاتھ کی ٹوپیاں ہاتھوں ہاتھ بک جایا کرتی تھیں اور جن کی رقم سے اس کی ضرورتیں پوری ہوجایاکرتی تھیں۔ بادشاہ کو یہ بھی احساس تھا کہ وہ ایک بادشاہ ہے۔بادشاہ جس کے پاس اپنی ایک حکومت ہے ۔ایک مضبوط قلعہ ہے۔اس قلعے میں اس کے اشارے پر جان دینے والی ایک فوج ہے۔
دوسری حکایت میں ایک فقیر تھا۔ فقیر جس کے مراقبے میں خدا تھا ۔اس خدا کی بنائی ہوئی جنت تھی اور اس جنت میں بے شمار حوروغلماں تھے ۔بہشتی میوے تھے۔ کوثروتسنیم نام کی نہریں تھیں اور ان نہروں میں شہد سے زیادہ میٹھا ،دودھ سے زیادہ سفیداور برف سے زیادہ ٹھنڈا پانی تھااور اس فقیر کو ان سب پر پورا پورا یقین تھا۔
حکایتوں کے ہمراہ یہ تفصیلات بھی ابھریں اور دیر تک دل ودماغ میں گردش کرتی رہیں۔
ان حکایتوں کے بعد ایک کہانی ابھری:
اس کہانی میں نہ کوئی بادشاہ تھا اور نہ ہی کوئی فقیر ۔صرف ایک آدمی تھا جو ایک ایسے گھر میں پیدا ہوا تھا جس کے اوپر چھت نہیں تھی۔جس کی دیواروں کے پشتے کمزور پڑ گئے تھے اور جس میں رہنے والوں کے پیٹ بھی اکثر خالی رہتے تھے۔ اس بغیر چھت اور کمزور پشتے کی دیواروں والے گھر میں پیدا ہونے والے اس آدمی کے لیے چھت بنانے اور پشتہ باندھنے اور اس کے سر پر سایہ کرنے کے لیے خالی پیٹ والوں نے بہت سارے سپنے بھی دیکھے تھے اور ان سپنوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے طرح طرح کے جتن بھی کیے تھے۔ خود اس آدمی نے بھی بہت ساری تعبیریں کی تھیں۔اپنادماغ لگایا تھا۔ہاتھ پیر چلائے تھے ۔انگلیوں کے ہنر دکھائے تھے۔ جسم و جاں جھلسائے تھے۔خون جلایا تھامگر جس کا نہ دماغ کام آسکاتھا اور نہ ہی ہاتھوں کے ہنر رنگ لا پائے تھے۔جس کے ہاتھوں کی بنی ہوئی چیزیں چوراہوں اور نکڑوں پر پڑے پڑے سٹر گل اور ٹوٹ پھوٹ گئی تھیں اورجس کے مراقبے سے بہت ساری چیزیں سرک گئی تھیں۔خدا کا یقین بھی کھسک کر کہیں اور جا پڑا تھا۔ اب وہاں صرف ایک پیٹ رہ گیا تھا جو خالی تھا اور جس کی خشک آنتیں کُلبلا رہی تھیں۔
کشکول سے اس نے ایک ایک کر کے ساری چیزیں نکال لیں :
پہلے اس نے پانچ کا نوٹ نکالا۔ کڑکڑاتا ہوا نوٹ۔اس نوٹ پر نگاہ پڑتے ہی اس پر پانچ پانچ روٹیاں اُبھرآئیں۔
پھر اس نے مڑا تُڑا ایک روپے کا نوٹ نکالا۔ اس بو سیدہ نوٹ کی تہیں سیدھی کیں۔ اسے فرش پر رکھ کر ہتھیلی سے خوب اچھی طرح دبادباکر اس کی سلوٹیں مٹائیں اور پھر اسے پانچ روپے کے کڑکڑاتے ہوئے نوٹ اور ایک کاغذ کے بیچ میں احتیاط سے رکھ کر اپنی اوپر والی جیب میں رکھ لیا۔
مڑے تُڑے نوٹ کے بعد اس نے سکّے نکالے۔ زیادہ تر سکّے گھسے ہوئے تھے۔نمبر مِٹ چکے تھے اور بعض توکھوٹے بھی تھے۔ بازار میں ان کا چلنا مشکل تھا۔پھر بھی اس نے انھیں اپنی جیب میں رکھ لیا۔جیب میں رکھنے سے پہلے اسے اپنے محلے کا دکاندار یاد آگیا تھا جس کی اندھی بیوی بھی کبھی کبھار دکاندار کی غیر موجودگی میں گلّے پر بیٹھ جایا کرتی تھی ۔
آخر میں اس نے کیلے کو نکالا۔اسے غورسے دیکھا ۔واقعی وہ پچکی ہوئی چوہیا معلوم ہورہا تھا اور بلغم کی طرح اس کا گودا باہر نکل آیا تھا۔دیر تک وہ اس کیلے کو دیکھتا رہا ۔
اس کیلے پرآس پاس کے دوسرے سینئر بکھاریوں کی نظریں بھی مرکوز ہوگئی تھیں جن کے کشکول میں ابھی تک کوئی چوہیا نہیں پڑی تھی۔ان میں سے کچھ آنکھیں بڑی باریکی سے اس کا معائنہ کررہی تھیں۔اس کے چہرے کے ہاؤ بھاؤ ، اس کے اندر کی کیفیات،اس کی انگلییوں کی کپکپاہٹ اور گرفت کے ڈھیلے پن پر بھی ان کی نظر تھی۔
اس نے اِدھر اُدھر اُچٹتی سی ایک نگاہ ڈال کر کیلے کے چھلکے کو الگ کیا اور بلغم نما پورے کا پورا گودا اپنے منہہ میں ڈال لیا۔
(مجموعہ پارکنگ ایریا ازغضنفر، ص 86)